Orhan

Add To collaction

سنگ مر مر

سنگ مر مر
 از قلم اسامہ رحمن مانی 
قسط نمبر6

ایک بار پھر رات کو فیصل سوچوں میں گم سم کھڑا تھا...
 وہ سوچ رہا تھا کہ یہ دنیا کتنی خوبصورت ہے اور اس شخص کی خوبصورتی سے اس دنیا کی خوبصورتی میں اچانک کتنا اضافہ ہو گیا ہے...
ایک شخص کا حسن اسے ساری کائنات کا حسن دکھلا رہا تھا...
میں اس بات کا ذکر کس سے کروں کہ اپنے دل کے سوا کسی سے اس کا ذکر کرنے کا دل تک نہیں چاہ رہا ہے...
اس نے فون نکالا تو دیکھ کر حیران رہ گیا...
آرزو کی تین مسڈ کالز آئی ہوئی تھیں...
اور پھر اس نے میسجز چیک کیے تو وہاں بھی آرزو کے چار پانچ میسجز ملے...
کیسے ہو؟ بزی ہو؟ ہیلو؟؟ ریپلائی تو کر دو؟ ناراض ہو کیا؟...
اس نے فوراً ریپلائی کیا کہ میری طبیعت صحیح نہیں تھی تمہارے میسجز ابھی دیکھے ہیں سوری...
یہ پڑھ کر آرزو نے فوراً دوبارہ کال کر دی...
فیصل پریشان ہو گیا...
اسے لگا کہ یقیناً اسے کوئی کام ہے جو اتنی کالز میسجز کر رہی ہے...
خیر اس نے فون اٹینڈ کیا...
ہاں بولو...
کیا ہوا تمہاری طبیعت کو؟ آرزو نے فوراً پوچھا...
اب تو ٹھیک ہے...دن میں بس کچھ اچھی نہیں تھی...بتاؤ تمہیں کوئی کام ہے کیا؟ 
آرزو کی جانب سے کوئی جواب نہ ملا...اسے یہ فیصل کا لہجہ لگا ہی نہیں تھا...جیسے کوئی اچانک سے بیگانہ ہو گیا ہو...
کیا ہوا تم نے بتایا نہیں...فیصل نے دوبارہ پوچھا...
مجھے کوئی کام نہیں ہے فیصل۔۔۔میں نے بس حال چال پوچھنے کے لیے فون کیا تھا۔۔۔شاید تم اپ سیٹ ہو۔۔۔اوکے میں فون رکھتی ہوں۔۔۔فیصل نے بھی اوکے بعد میں بات کرتے ہیں کہہ کر کال کاٹ دی۔۔۔
اسے کامران کے زریعے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ اب آرزو کے والد کی جاب باقی نہیں رہی ہے اسی وجہ سے وہ یہاں واپس آ گئے ہیں۔۔۔
تو یہ میرے بارے میں جان کر زیادہ کنٹیکٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ میں ایک ہوٹل کا مالک ہوں؟
فیصل کو خیال آیا۔۔۔
___________________________
میسج کی ٹون سے ایمان خیالات کی دنیا سے باہر آئی، جو اپنی سٹڈی کرتے ہوئے جانے کب اس گاڑی والے لڑکے کے بارے میں سوچنا شروع ہو گئی تھی۔۔۔
اس نے میسج دیکھا تو سم نیٹ ورک کا میسیج تھا۔۔۔۔سر جھٹک کر اس نے دوبارہ کتاب میں سر دے دیا۔۔۔
"وہ برا نہیں ہے"۔۔۔
اس کے دماغ میں نور کا جملہ گونجا۔۔۔
اس نے پیشانی کو دونوں طرف سے ہلکا سا دبایا اور اگنور کر دیا۔۔۔
"تو وہ اچھا ہی ہوا نا پھر"۔۔۔ایک منٹ بعد دوبارہ اس کے کان میں کہیں کوئی آواز سنائی دی۔۔۔
اس نے کتاب پٹخ کر بند کر دی۔۔۔
آخر وہ کون ہے جو میرے ذہن سے نکل ہی نہیں رہا۔۔۔میں تو اس کو جانتی تک نہیں ہوں۔۔۔اور نہ وہ مجھے۔۔۔پھر یہ۔۔۔۔اووہ۔۔۔
وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔۔۔
کیا بے چینی ہے۔۔۔تم یہ بار بار کیوں اندر باہر کہ چکر لگا رہی ہو ایمان؟
ساجدہ بیگم کی آواز سن کر اس کا ماتھا ٹھنکا۔۔۔
اسے احساس ہوا کہ واقعی وہ دس منٹ میں کوئی چار دفعہ بے وجہ اندر باہر کا چکر لگا چکی تھی۔۔۔
وہ چھت پر جا پہنچی۔۔۔
"اور وہ آپ کو پہلی نظر میں اچھا لگ گیا۔؟"
وہاں بھی ان سوالات و جوابات نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔۔۔
وہ ایک منٹ تک اسی شش و پنج میں مبتلا رہی۔۔۔
کہ یہ سوال کس کا ہے ،کہاں سے آیا ہے، مگر وہ سمجھ نہ پائی۔۔۔
وہ بس اتنا جانتی تھی کہ اس کا جواب اس کے دل نے دینا ہے۔۔۔
یہ سوچتے ہی اس کی ہارٹ بیٹ تیز ہو گئی۔۔۔
پہلی نظر میں اچھا لگ گیا؟
"ہاں شاید"۔۔۔اس کے دل نے لمحے کا توقف کیے بغیر جواب دیا۔۔۔
وہ لمحہء اقرار ان دونوں کے لیے کیا تھا؟ اس بات کا اندازہ بس انہیں ہی تھا۔۔۔ 
___________________________
جانے کیا وجہ تھی گزشتہ تین چار دن سے فیصل جلدی جاگنے کا عادی ہو چکا تھا۔۔۔
وہ روزانہ کی طرح ایک بار پھر اسی جگہ پہنچا جہاں دو دن سے اس کی ملاقات اماں سے ہو رہی تھی۔۔۔
آج اماں وہاں موجود نہ تھیں۔۔۔
وہ بے اختیار ان کے گھر چلا گیا۔۔۔
اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔
اماں صدیقہ اسے دروازے پر دیکھ کر حیران بھی تھیں مگر خوش بھی تھیں انہوں نے فوراً اسے اندر آنے کا کہا۔۔۔
آج آپ وہاں نہیں ملیں تو میں نے سوچا آپ کی خیریت معلوم کر لوں۔۔۔
جیتے رہو بیٹا۔۔۔تم ٹھیک ہو؟ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔۔۔
جی۔۔۔وہ مسکرا دیا۔۔۔
لیکن اماں صدیقہ چونکہ دور اندیش خاتون تھیں۔۔۔اور چہروں کو پڑھنے کی ماہر تھیں۔۔۔ اس کا چہرہ دیکھتے ہی جان گئیں کہ کچھ نہ کچھ خاص بات بھی فیصل اپنے دل میں چھپائے بیٹھا ہے۔۔۔
کافی خوش معلوم ہو رہے ہو۔۔۔وہ خوشی کی وجہ کیا ہے؟۔۔۔اماں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں پوچھا۔۔۔
اس نے حیرت سے اماں کو دیکھا۔۔۔
نن۔۔۔نہیں۔۔۔ایسی تو کوئی خاص بات نہیں ہے۔۔۔
ہمم۔۔۔اچھا۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔مجھے ایسا لگا۔۔۔
اچھا اماں میں چلتا ہوں۔۔۔میں پھر آؤں گا۔۔۔
اچھا بیٹا۔۔۔اللہ تمہیں خوش رکھے۔۔۔
فیصل وہاں سے نکلتے ہی سوچنے لگا کہ اماں کو کیسے پتہ چل گیا میرے دل کا حال۔۔۔۔یہ۔۔۔۔یہ کوئی عام خاتون نہیں ہیں۔۔۔وہ رک گیا۔۔۔اور دوبارہ اندر گیا۔۔۔اماں۔۔۔آپ کا نام کیا ہے؟
خیر النساء۔۔۔ انہوں نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔
اچھا۔۔۔اچھا صحیح۔۔۔
اس کو اماں خیر النساء دلچسپ خاتون معلوم ہوئی تھیں۔۔۔وہ وہاں سے چلا گیا۔۔۔
___________________________
آج تم بڑی خوش خوش نظر آ رہی ہو بھئی۔۔۔کیا بات ہے؟۔۔۔زارا نے ایمان سے استفسار کیا۔۔۔
میں؟ایمان نے یوں ظاہر کیا جیسے سوال اس کے لیے نہ ہو۔۔۔
اور کون۔۔۔تم سے ہی پوچھ رہی ہوں۔۔۔
میں تو خوش ہی رہتی ہوں الحمدللہ۔۔۔اس نے سرسری سا جواب دیا۔۔۔
مگر۔۔۔۔آج کچھ خاص بات ہے سہی جو تم بتا نہیں رہیں۔۔۔زارا نے شرارتی انداز میں ناک چڑھا کر کہا۔۔۔ 
چپ رہو۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔تمہیں لگ رہا ہے۔۔۔ اس نے آہستہ سے کتاب مارتے ہوئے کہا۔۔۔
___________________________
آج فیصل حمزہ کو بنا بتائے ہی جانے لگا کہ کہیں اسے عجیب ہی نہ لگے۔۔۔لیکن حمزہ نے اسے دیکھ لیا۔۔۔
فیصل۔۔۔وہ حمزہ کی آواز سن کر رک گیا۔۔۔
بولو۔۔۔
جا رہے ہو؟
ہاں۔۔۔بس آتا ہوں زرا دیر میں۔۔۔
اچھا۔۔۔کیا میں جان سکتا ہوں کہ کونسا کام ہے جس کے لیے تم فکس ڈیڑھ بجے نکل جاتے ہو روزانہ۔۔۔اور ابھی تک کام ہوا بھی نہیں۔۔۔
فیصل ایک منٹ خاموش کھڑا رہا پھر بولا۔۔۔بتا دوں گا تمہیں۔۔۔تم میرے دوست ہو۔۔۔زرا صبر کرو۔۔۔حمزہ کندھے اچکا کر واپس مڑ گیا۔۔۔
اتفاق سے آج طبیعت کی خرابی کے باعث سلیم اختر کالج نہیں گئے تھے۔۔۔
ایمان اور نور اکیلی ہی واپس آ رہی تھیں۔۔۔
فیصل نے مناسب سمجھا کہ اس سے بات کر لی جائے۔۔۔مگر پھر اس نے ارادہ ترک کر دیا۔۔۔
ان کے قریب پہنچنے پر وہ گاڑی سے باہر نکل آیا۔۔۔
ایمان اسے دیکھ کر گھبرا سی گئی۔۔۔اور تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔۔۔
رکیے۔۔۔مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔۔۔
فیصل نے مؤدب انداز میں کہا۔۔۔میں گلی میں کھڑی ہو کر کسی کی بات نہیں سنتی۔۔۔اس نے نظریں جھکا کر جواب دیا۔۔۔
ٹھیک ہے پھر۔۔۔یہ میرا کارڈ ہے۔۔۔مجھے آپ کے ٹیکسٹ کا انتظار رہے گا۔۔۔
مجھے یقین ہے آپ میری بات ضرور سنیں گی۔۔۔
فیصل کے لہجے میں واقعی ایک یقین جھلک رہا تھا۔۔۔
بے اختیار فیصل کے بڑھے ہوئے ہاتھ سے اس نے کارڈ لے لیا۔۔۔
یہ کہہ کے فیصل وہاں سے چل دیا۔۔۔
ایمان اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔۔۔

   1
0 Comments